Tuesday, March 1, 2011

امام علی(ع) کی حضرت ابوبکر اور عمر کے بارے میں رایے

عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، حضرت زہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا میں دن چڑھے آپ کی خدمت میں آ گیا حضرت مالک فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کا تکیہ لگائے بیٹھے ہیں کہ تیری قوم کے کچھ آدمی جلدی جلدی میں آئے تھے میں نے ان کو کچھ سامان دینے کا حکم کر دیا ہے اب تم وہ مال لے کر ان کے درمیان تقسیم کر دو میں نے عرض کیا اے امیر المومنین! آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کام پر مقرر فرما دیں آپ نے فرمایا اے مالک تم ہی لے لو اسی دوران (آپ کا غلام) یرفاء اندر آیا اور اس نے عرض کیا اے امیر المومنین! حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ علیھم اجمعین حاضر خدمت ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کر دیں اور ان کو ان سے راحت دلائیں حضرت مالک بن اوس کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات یعنی عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حضرت کو اسی لئے پہلے بھیجا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم (پیغمبروں) کے مال میں سے ان کے وارثوں کو کچھ نہیں ملتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب کہنے لگے کہ جی ہاں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص بات کی تھی کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے نہیں کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دیہات والوں کے مال سے عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہی حصہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی ہے یا نہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کے درمیان بنی نضیر کا مال تقسیم کر دیا ہے اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور ایسے بھی نہیں کیا کہ وہ مال خود لے لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ مال باقی رہ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں سے اپنے ایک سال کا خرچ نکال لیتے پھر جو باقی بچ جاتا وہ بیت المال میں جمع ہو جاتا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے پہلے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم کو یہ معلوم ہے انہوں نے کہا جی ہاں پھر اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا لوگوں نے کہا کیا تم دونوں کو اس کا علم ہے انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا والی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اپنے بھتیجے کا حصہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے مال کا کوئی وراث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان(ابوبکر) کو جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن سمجھتے ہو اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور حق کے تابع تھے پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ولی بنا اور تم نے مجھے( عمر ) بھی جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن خیال کیا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ ہوں اور میں اس مال کا بھی والی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے کر دیں میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دوں گا کہ اس مال میں تم وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ان دونوں حضرات نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے ہو اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہو سکتا تو پھر یہ مال مجھے لوٹا دو۔
صحیح مسلم جلد ۱۲ صفہہ ۱۰۷,۱۰۸ مع شرح النووی
السنن الكبرى جلد ۶ صفہہ ۴۹۶













No comments:

Post a Comment