Saturday, March 5, 2011

?(کیا امام ذہبی ناصبی ہیں یعنی دشمن علی(ص

امام ذہبی حضرت علی (رض) کے فضائل برداشت نہیں کر پاتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی حدیث آنحضرت (رض) کی فضیلت کو بیان کر رہی ہوتی تو اسے کسی نہ کسی طرح ردّ کر دیتے .جیسا کہ غماری سنی نے لکھا ہے


الذّھبی اذا رأی حدیثا فی فضل علیّ رضی اللہ عنہ بادر الی انکارہ بحق ّ وبباطل،کان لایدری ما یخرج من رأسہ  فتح الملک العلی ۲۰





Thursday, March 3, 2011

حضرت عبدالله بن عمر کی افطاری

عبدالّلہ ابن عمر روزے کا افطار صحبت سے کیا کرتے اور کھانا بعد کو کھاتے - ماہ رمضان میں نماز عشا سے پیشتر اپنی تین تین لونڈیوں سے صحبت کرتے





تحریف جدید عبارت حذف کر دی گیی







Wednesday, March 2, 2011

اہلسنت حفاظ کی صحیحین پیر ایک نظر

حفاظ نے صحیح بخاری کے اسی ۸۰ رجال کو ضعیف قرار دیا ہے, اس طرح انہوں نے صحیح بخاری کیلیے سب سے بڑی مشکل پیدا کر دی ہے- کیونکہ ان میں بعض رجال کاذب اور غیر معتبر ہونا اس قدر مسلم ہے جن  میں شک کرنے کی کوئ گنجایش نہیں چناچہ ان کا حال معلوم ہے- لیکن بعض رجال ایسے بھی ہیں جن کا حال مجحول ہے- لہذا اس قسم کے افراد حدیث کی اسناد میں آیے ہیں- ان کے باریمیں ہمارے لیے حدیث کی تشخیص بڑا مشکل مسلہ ہے- ان مجحول الحال راویوں میں ہی حضرت ابن عباس کا غلام عکرمہ ہے- اس نے قدر حدیثیں نقل کی ہیں جس کی حد و انتہا نہین- چناچہ اس کی جھوٹی حدیثوں سے حدیث و تفسیر کی دنیا مّملو نظر آتی ہے- حالانکہ بعض رجال نے اسے مجحول الحال , کاذب اور خوارج کہ پیرو بتلایا ہے- یہ امرا سے انعامح حاصل کر کے حدیثیں  گڑھتا تھا- علمایے رجال نے اس جھوٹ کے متعدّد شواہد نقل کیے ہیں


ضحى الإسلام ـ الجزء ۲ صفہہ ۱۱۷,۱۱۸






کنوارے سنی بھایوں کے لیے نسخہ کیمیا... کبوتری سے بھیا

 وَحَدِيثِ "شَكَا رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْدَةَ فَقَالَ لَهُ: لَوِ اتَّخَذْتَ زَوْجًا مِنَ حَمَامٍ فَآنَسَكَ وَأَصَبْتَ مِنْ فراخه
ترجمہ
ایک شخص نے رسول(ص) سے بے نکاح ہونے کی شکایت کی- آپ(ص) نے فرمایا کبوتری کو زوجہ بنا لو
 المنار المنيف صفہہ ۱۰۶
كنز العمال جلد ۱۵ صفہہ ۴۲۹







Tuesday, March 1, 2011

امام علی(ع) کی حضرت ابوبکر اور عمر کے بارے میں رایے

عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، حضرت زہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا میں دن چڑھے آپ کی خدمت میں آ گیا حضرت مالک فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کا تکیہ لگائے بیٹھے ہیں کہ تیری قوم کے کچھ آدمی جلدی جلدی میں آئے تھے میں نے ان کو کچھ سامان دینے کا حکم کر دیا ہے اب تم وہ مال لے کر ان کے درمیان تقسیم کر دو میں نے عرض کیا اے امیر المومنین! آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کام پر مقرر فرما دیں آپ نے فرمایا اے مالک تم ہی لے لو اسی دوران (آپ کا غلام) یرفاء اندر آیا اور اس نے عرض کیا اے امیر المومنین! حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ علیھم اجمعین حاضر خدمت ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کر دیں اور ان کو ان سے راحت دلائیں حضرت مالک بن اوس کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات یعنی عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان حضرت کو اسی لئے پہلے بھیجا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم (پیغمبروں) کے مال میں سے ان کے وارثوں کو کچھ نہیں ملتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب کہنے لگے کہ جی ہاں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص بات کی تھی کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے نہیں کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دیہات والوں کے مال سے عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہی حصہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی ہے یا نہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کے درمیان بنی نضیر کا مال تقسیم کر دیا ہے اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور ایسے بھی نہیں کیا کہ وہ مال خود لے لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ مال باقی رہ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال میں سے اپنے ایک سال کا خرچ نکال لیتے پھر جو باقی بچ جاتا وہ بیت المال میں جمع ہو جاتا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے پہلے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم کو یہ معلوم ہے انہوں نے کہا جی ہاں پھر اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دی انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا لوگوں نے کہا کیا تم دونوں کو اس کا علم ہے انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا والی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اپنے بھتیجے کا حصہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے مال کا کوئی وراث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان(ابوبکر) کو جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن سمجھتے ہو اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور حق کے تابع تھے پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ولی بنا اور تم نے مجھے( عمر ) بھی جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن خیال کیا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ ہوں اور میں اس مال کا بھی والی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے کر دیں میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دوں گا کہ اس مال میں تم وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ان دونوں حضرات نے کہا جی ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے ہو اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہو سکتا تو پھر یہ مال مجھے لوٹا دو۔
صحیح مسلم جلد ۱۲ صفہہ ۱۰۷,۱۰۸ مع شرح النووی
السنن الكبرى جلد ۶ صفہہ ۴۹۶













Monday, February 28, 2011

علي(ع) ہر مومن کے ولی ہیں

 حدثنا : عبد الله ، قثنا : أبو الربيع ، قثنا : جعفر بن سليمان ، قثنا : يزيد الرشك ، عن مطرف ، عن عمران بن حصين قال : قال رسول الله (ص) : علي مني ، وأنا منه ، وهو ولي كل مؤمن بعدي


ترجمہ


نبی(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) مجھ سے ہے اور میں علی(ع) سے ہوں اور علی(ع) ہر مومن کا ولی ہوں


سنن الترمذي  جلد ۵ صفہہ ۳۶

2-  كتاب السنة صفہہ ۵۵۰ 

3-  تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي جلد ۱۰ صفہہ ۲۱۱, ۲۱۲


4:  فضائل الصحابة صفہہ ۱۴, ۱۵



5- أحمد بن حنبل-فضائل الصحابة جلد ۱ صفہہ ۶۵۸ 








Sunday, February 27, 2011

حضرت عمراور لقب فاروق

وقال ابن شهاب بلغنا أنّ أهل الكتاب كانوا أول من قال لعمر الفاروق
ترجمہ
سب سے پہلے یہود نے حضرت عمر کو فاروق کا لقب دیا ہے
جلد ۲ صفہہ ۶۶۲



اہلسنت کے نزدیک مسجد میں پیشاب کرنا جایز ہے

 مالك عن يحيى بن سعيد أنه قال دخل أعرابي المسجد فكشف عن فرجه ليبول فصاح الناس به حتى علا الصوت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( ( اتركوه فتركوه فبال ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بذنوب من ماء فصب على ذلك المكان


ترجمہ


مالک نے  يحيى بن سعيد سے روایت کی ہے - وہ بیان کرتا ہے- کہ ایک اعربی مسجد میں داخل ہواور اپنی شرم گاہ کھول کر پیشاب کرنے کا ارادہ کیا تب لوگوں نے پکار کر کہا- یہ مسجد ہے- یہاں تک کے آوزیں بلند ہویں - پس آنحضرت(ص) نے فرمایا اسے چہوڑ دو- پس انہوں نے چھوڑ دیا- اور اس نے پیشاب کر دیا


 الاستذكار ج ۳ صفہہ ۲۵۶







تھوک سے استنجا کے جواز کا جواب

علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن حنان بن سدير قال : سمعت رجلا سأل أبا عبد الله ( عليه السلام ) فقال : ربما بلت ولم أقدر على الماء ويشتد علي ذلك ؟ فقال : إذا بلت وتمسحت فامسح ذكرك بريقك فإن وجدت شيئا فقل : هذا من ذاك
ترجمہ
ایک شخص نے کہا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں پیشاب کر لیتا ہوں اور طہارت کے لیے پانی نہین ہوتا - لیکن طہارت نا ہونا مجھ پر شاق ہوتا ہے- فرمایا تم ذکر پر تھوک مل دو- اگر بعد میں پانے مل جایے تو سمجہو یہ اسکہ بدلہ تھا 



جواب
1:   مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏13، ص:  میں علامہ مجلسی(رح) 63 نے اس روایت کو موثق کہا ہے 

اور موثق روایت کی تعریف یوں ہے کہ جس میں شیعہ راوی کے علاوہ کوئ اور راوی ہو



میری نظر میں  روایت موثق نہین مجھول ہے کیونکہ روایت کہ الفاظ صاف ہین  "سمعت رجلا" جس سے معلوم نہین ہوتا کہ راوی کون ہے - 

اور اگر مان بھی لیا جایے کہ روایت حسن او موثق ہے تو  امام سے یہ مسلہ سنی(یا فاسد المذہب) نے پوچھا ہے تو امام(ع) نے اسے اس کے مذہب کے مطابق فتوی دیا ہے- جیسا کہ رجال کشی کے روایت اس بات پر دلالت کرتے ہے

 رجال الكشي : حمدويه ، وإبراهيم ابنا نصير ، عن ابن يزيد ، عن ابن أبي عمير ، عن حسين بن معاذ ، عن أبيه معاذ بن مسلم النحوي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال لي : بلغني أنك تقعد في الجامع فتفتي الناس قال : قلت : نعم وقد أردت أن أسألك عن ذلك قبل أن أخرج ، إني أقعد في الجامع فيجئ الرجل فيسألني عن الشئ فإذا عرفته بالخلاف لكم أخبرته بما يقولون ، ويجئ الرجل أعرفه بحبكم أو بمودتكم فأخبره بما جاء عنكم ، ويجئ الرجل لا أعرفه ولا أدري من هو فأقول : جاء عن فلان كذا ، وجاء عن فلان كذا فادخل قولكم فيما بين ذلك قال : فقال لي : اصنع كذا فإني أصنع كذا
ترجمہ
جناب صادق(ع) نے معاذ بن مسلم سے دریافت کیا کہ مجھے خبر ملی ہے - کہ تم جامع مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی دیتے ہو- معاذ کہتے ہیں- میں نے عرض کے ہاں- اور میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے قبل جانے کے اسے دریافت بھی کر لوں- تو میں مسجد  میں بیٹھا کرتا ہوں- کویی آتا ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے - تو اگر میں جان لیتا ہوں- کہ وہ آپ کا مخالف ہے- تو اس کو ویسا ہی مسلہ بتا دیتا ہوں جیسا وہ لوگ کرتے ہیں- اور کوئ ایسا آتا ہے- جسکی بابت معلوم ہوتا ہے وہ آپکا دوست ہے- یعنی شیعہ ہے- تو اسے وہ  بتاتا ہون- جو آپ سے مجھ کو جو پہونچا ہے- اور اگر کوئ ایسا آتا ہے جس کی بابت معلوم نہین کے سنی ہے کہ شیعہ  تو اسے کہ دیتا ہوں کہ فلاں کا یہ قول ہے اور  فلاں کا یہ قول ہے - اور اپکے قول کو اسکے درمیان میں داخل کر دیتا ہوں - معصوم(ع) نے فرمایا ایسا ہی کیا کرو- کیونکہ میں بھی ایسا کرتا ہوں


بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهارج ۱ صفہہ ۱۴۹ (طبع جدید ج۲ صفہہ ۱۲۲)





حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: «مَا كَانَ لِإِحْدَانَا إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ دَمٍ قَالَتْ بِرِيقِهَا، فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا
ترجمہ
ابو نعیم، ابراہیم بن نافع، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کے پاس ایک کپڑے سے زائد نہ ہوتا تھا، اسی میں حائضہ ہوتی تھی، پھر جب اس میں خون لگ جاتا، تو اس پر تھوک دیتی اور اپنے ناخن سے اسے مل ڈالتی تھی
صحيح البخاري ج ۱ صفہہ ۶۹






مِمَّا يستنبط مِنْهُ جَوَاز إِزَالَة النَّجَاسَة بِغَيْر المَاء فَإِن عمدة القاري شرح صحيح البخاري
ج ۴ صفہہ ۴۱۷
ترجمہ
مذکورہ حدیث سے جو احکام نکالے جاتے ہین ان میں یہ بھی حکم بھی ہے کہ پانی کے بغیر بھی نجاست کا دور کرنا جایز ہے کیونکہ خون نجس ہے