علي بن إبراهيم ، عن أبيه ، عن حنان بن سدير قال : سمعت رجلا سأل أبا عبد الله ( عليه السلام ) فقال : ربما بلت ولم أقدر على الماء ويشتد علي ذلك ؟ فقال : إذا بلت وتمسحت فامسح ذكرك بريقك فإن وجدت شيئا فقل : هذا من ذاك
ترجمہ
ایک شخص نے کہا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں پیشاب کر لیتا ہوں اور طہارت کے لیے پانی نہین ہوتا - لیکن طہارت نا ہونا مجھ پر شاق ہوتا ہے- فرمایا تم ذکر پر تھوک مل دو- اگر بعد میں پانے مل جایے تو سمجہو یہ اسکہ بدلہ تھا
جواب
1: مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج13، ص: میں علامہ مجلسی(رح) 63 نے اس روایت کو موثق کہا ہے
اور موثق روایت کی تعریف یوں ہے کہ جس میں شیعہ راوی کے علاوہ کوئ اور راوی ہو
میری نظر میں روایت موثق نہین مجھول ہے کیونکہ روایت کہ الفاظ صاف ہین "سمعت رجلا" جس سے معلوم نہین ہوتا کہ راوی کون ہے -
اور اگر مان بھی لیا جایے کہ روایت حسن او موثق ہے تو امام سے یہ مسلہ سنی(یا فاسد المذہب) نے پوچھا ہے تو امام(ع) نے اسے اس کے مذہب کے مطابق فتوی دیا ہے- جیسا کہ رجال کشی کے روایت اس بات پر دلالت کرتے ہے
رجال الكشي : حمدويه ، وإبراهيم ابنا نصير ، عن ابن يزيد ، عن ابن أبي عمير ، عن حسين بن معاذ ، عن أبيه معاذ بن مسلم النحوي ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : قال لي : بلغني أنك تقعد في الجامع فتفتي الناس قال : قلت : نعم وقد أردت أن أسألك عن ذلك قبل أن أخرج ، إني أقعد في الجامع فيجئ الرجل فيسألني عن الشئ فإذا عرفته بالخلاف لكم أخبرته بما يقولون ، ويجئ الرجل أعرفه بحبكم أو بمودتكم فأخبره بما جاء عنكم ، ويجئ الرجل لا أعرفه ولا أدري من هو فأقول : جاء عن فلان كذا ، وجاء عن فلان كذا فادخل قولكم فيما بين ذلك قال : فقال لي : اصنع كذا فإني أصنع كذا
ترجمہ
جناب صادق(ع) نے معاذ بن مسلم سے دریافت کیا کہ مجھے خبر ملی ہے - کہ تم جامع مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی دیتے ہو- معاذ کہتے ہیں- میں نے عرض کے ہاں- اور میرا ارادہ تھا کہ میں آپ سے قبل جانے کے اسے دریافت بھی کر لوں- تو میں مسجد میں بیٹھا کرتا ہوں- کویی آتا ہے اور مجھ سے سوال کرتا ہے - تو اگر میں جان لیتا ہوں- کہ وہ آپ کا مخالف ہے- تو اس کو ویسا ہی مسلہ بتا دیتا ہوں جیسا وہ لوگ کرتے ہیں- اور کوئ ایسا آتا ہے- جسکی بابت معلوم ہوتا ہے وہ آپکا دوست ہے- یعنی شیعہ ہے- تو اسے وہ بتاتا ہون- جو آپ سے مجھ کو جو پہونچا ہے- اور اگر کوئ ایسا آتا ہے جس کی بابت معلوم نہین کے سنی ہے کہ شیعہ تو اسے کہ دیتا ہوں کہ فلاں کا یہ قول ہے اور فلاں کا یہ قول ہے - اور اپکے قول کو اسکے درمیان میں داخل کر دیتا ہوں - معصوم(ع) نے فرمایا ایسا ہی کیا کرو- کیونکہ میں بھی ایسا کرتا ہوں
بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهارج ۱ صفہہ ۱۴۹ (طبع جدید ج۲ صفہہ ۱۲۲)
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: «مَا كَانَ لِإِحْدَانَا إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ دَمٍ قَالَتْ بِرِيقِهَا، فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا
ترجمہ
ابو نعیم، ابراہیم بن نافع، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کے پاس ایک کپڑے سے زائد نہ ہوتا تھا، اسی میں حائضہ ہوتی تھی، پھر جب اس میں خون لگ جاتا، تو اس پر تھوک دیتی اور اپنے ناخن سے اسے مل ڈالتی تھی
صحيح البخاري ج ۱ صفہہ ۶۹
مِمَّا يستنبط مِنْهُ جَوَاز إِزَالَة النَّجَاسَة بِغَيْر المَاء فَإِن عمدة القاري شرح صحيح البخاري
ج ۴ صفہہ ۴۱۷
ترجمہ
مذکورہ حدیث سے جو احکام نکالے جاتے ہین ان میں یہ بھی حکم بھی ہے کہ پانی کے بغیر بھی نجاست کا دور کرنا جایز ہے کیونکہ خون نجس ہے